Chak Misri


 

 

 

 

 

یراں دا بنگلہ‘‘ چک مصری کی تاریخی عمارت جہاں روزانہ چوپال سجتی ہے

علی خان

تحصیل کلرکہار کے قصبہ چک مصری میں سادات کا ایک خاندان صدیوں سے آباد ہے ۔ سید خانوادے کا سلسلہ نسب پیر بہا الدین زکریا ملتانی رح سے جا ملتا ہے اور وہاں سے ولایت کے سرتاج حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔

پیر کرم شاہ رح (متوفی 1852ء) المعروف ٹوپی والی سرکار کھارا شریف کی بھتیجی قصبہ پیل کے پیر فتح شاہ کی زوجیت میں آئیں تو وہ اپنے جہیز میں بھیرہ کی سینکڑوں بیگھے زمین بھی لائیں جسے بعد میں انہوں نے پیر حسن شاہ سے تبادلہ کیا اور چک مصری میں قریباً 320 بیگھے زمین لی ۔ یہ سنی العقیدہ سادات خاندان ہے ۔ مائی صاحبہ صوبہ بانو کے والد پیر چراغ شاہ کی قبر سردھی میں ہے جبکہ پیر حسن شاہ بھیرہ میں مدفون ہیں ۔

قصبہ چک مصری کے وسط میں کالونیل طرز تعمیر کی ایک قدیم عمارت آج بھی مضبوطی سے قدم جمائے کھڑی ہے ۔ اس عمارت کی بنیادیں اس کچی ڈیوڑھی کو ڈھا کر رکھی گئی تھیں جسے “پیر حسن شاہ کی ڈیوڑھی” کہا جاتا تھا ۔ اس عمارت کو34- 1933میں پیر عنایت شاہ نے تعمیر کرایا تھا ۔

پیر عنایت شاہ اس گھرانے کی معروف ترین شخصیت تھے ۔ اُن کے والد کا نام پیر ولایت شاہ تھا ۔ ان کی گیارہ مربعے زمین ساہیوال اور تین مربعے شیخوپورہ میں تھے اور چک مصری میں بھی زمین تھی ۔ پیر عنایت شاہ 1954ء میں اپنی وفات تک علاقے دار اور ذیلدار رہے اُن کی علاقے داری میں ونہار کے 26 دیہات آتے تھے ۔

پیر عنایت شاہ کے دو بیٹے تھے پیر محمد شاہ فوج میں جبکہ پیر فضل شاہ پولیس کے محکمہ میں تھے ۔ پیر عنایت شاہ کے چھوٹے بھائی پیر امام شاہ پیر مریدی کے معاملات سنبھالتے اور تعویذ دھاگہ بھی کرتے تھے ۔

1933ء میں پیر عنایت شاہ اُس وقت علاقے دار بنے جب ملک فتح خان کو بطور علاقے دار برطرف کر دیا گیا تھا ۔ نئے علاقے دار کے لیے چار درخواستیں حکومت وقت کو موصول ہوئین جس کے بعد بوچھال کلاں میں ڈی سی جہلم نے فیصلہ کرنا تھا ۔ علاقے کے لوگوں نے ڈی سی جہلم کو کہا کہ علاقے داری پیر عنایت شاہ کو دی جائے کیونکہ ان کی اردگرد کے 26 دیہات میں کوئی رشتہ داری نہ ہے چنانچہ وہ اس عہدے پر غیر جانبدار رہیں گے ۔ چک مصری میں 320 بیگھہ زمین پر نمبرداری بھی انہیں دی گئی ۔

علاقے داری کے بعد پیر عنایت شاہ نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ گاؤں کے وسط میں ایک اچھی بیٹھک تعمیر کی جائے ۔ محتاط اندازے کے مطابق اس بیٹھک پر تین ہزار سے کم رقم خرچ ہوئی تھی ۔ یہ عمارت ایک مرکزی کمرے کے ساتھ دو جڑواں چھوٹے کمروں اور باتھ روم پر مشتمل ہے اور اس کے تین اطراف میں برآمدہ ہے ۔ اسے بکھاری کلاں کے معروف مستری غلام محمد نے بنایا تھا اور بھون کے بھٹہ خشت سے اینٹیں منگوائی گئی تھیں ۔

پیر عنایت شاہ نے رسمی تعلیم حاصل نہ کی تھی اور وہ پیر مہر علی شاہ رح گولڑہ شریف کے مرید تھے اور اُن کی قدم بوسی کے لیے چک مصری سے اپنے گھوڑے پر وہاں جایا کرتے تھے ۔ اُن کا منشی قصبہ بولے کا سید رسول تھا ۔ وہ خوبصورت شخصیت کے ساتھ عمدہ رکھ رکھاؤ کے حامل تھے چنانچہ انگریزی عہد ملکی سطح پر ہونے والے اجلاس اور تقریبات میں اعتماد سے شرکت کرتے ۔

1934ء میں آباد ہونے والا یہ ’’دارہ‘‘ بعد میں ’’پیراں دا بنگلہ‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا ۔ یہ مقام اپنی تعمیر سے پہلے بھی آباد تھا اور اب بھی قریب اسی سال گذر جانے پر بھی یہاں روز چوپال سجتی ہے جس میں خاندان اور گاؤں کے لوگ مل بیٹھتے ہیں اور ایک خوبصورت روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔

40 سالہ پیر فیصل شاہ اب اس بنگلے کے نگہبان اور وارث ہیں ۔ پیر عنایت شاہ اُن کے پڑنانا تھے ۔ پیر فیصل شاہ پیر فضل شاہ کے نواسے ہیں اور خاندان کے تمام معاملات اب انہی کی ذمہ داری ہیں ۔ اُن کا گھر دارہ یا بنگلہ سے کچھ ہی دور واقع ہے مگر اُن کا بیشتر فاضل وقت اسی بنگلہ پر گذرتا ہے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے نانا پیر فضل شاہ اور دادا سید امیر شاہ قیام پاکستان سے قبل ہی عملی سیاست کرتے رہے مگر اُس کے بعد کسی نے اس طرف توجہ نہ دی ہے ۔ اب وہ محض کاروباری معاملات اور نمبرداری کا سلسلہ ہی چلاتے ہیں ۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ چوپال ہماری سب سے بڑی تفریح ہے اور یہاں چلنے والا گپ شپ کا سلسلہ ہماری تفریح طبع کا باعث بنتا ہے ہم بزرگوں کی اس نشانی کو آباد رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔

1943ء میں پیدا ہونے والے پیر اقبال شاہ انتہائی چاق و چوبند زندگی گذارتے ہیں ۔ خوش لباس اور خوبصورت اقبال شاہ اس چوپال کے مستقل رکن ہیں ۔ وہ سید فیصل شاہ کے قریبی عزیز اور سُسر ہیں اور خاندان بھر کے سلسلہ ہائے نسب، بزرگوں کے مزار اور اُن کی کرامات انہیں ازبر ہیں ۔ وہ سانپ کاٹے کا دم بھی کرتے ہیں ۔ انہوں نے 1960ء میں قصبہ پیل کے ہائی سکول سے میٹرک کیا ہے اور اس بنگلے پر چوتھی نسل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔

اُن کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس بنگلے پر انگریز افسران کی آمد و رفت دیکھی ہے ۔ علاقے میں سیاسی و سماجی سرگرمیوں اور تصفیے کرانے کے لیے بھی یہی مقام استعمال ہوتا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ عمر بھر زمینداری کے ساتھ پیر مریدی کا سلسلہ رہا اور اب بھی بلاناغہ وہ اپنے گھر میں بیٹھ کر یہ سلسلہ چلاتے ہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ چوپال ہماری رونق ہے ۔ ماضی میں گاؤں کی کوئی بھی سرگرمی ہوتی تو اسی مقام پر ہوتی تھی مگر اب ہم کچھ ہی دوست باقی ہیں جو یہاں باقاعدگی سے بیٹھ کر گپ شپ کرتے ہیں۔ یہ گپ شپ دنیا بھر کے موضوعات پر ہوتی ہے اور یہ چوپال ہماری زندگی کا اہم حصہ ہے ۔ پیر عنایت شاہ کی وفات پر یہاں صوبہ بھر سے مختلف شخصیات کی آمد ہوئی مگر اُن کی وفات کے بعد یہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا ۔

پیراں دا بنگلہ پر ستر سالہ صوبیدار محمد صادق بلاناغہ آتے ہیں اور اُن کی گفتگو کا مرکز سیاست ہوا کرتی ہے ۔ پچپن سالہ صابر حسین سیمنٹ فیکٹری میں ملازمت کرتے ہیں مگر ہر رات بلاناغہ بنگلے پر حاضری دیتے ہیں اُن کی گفتگو کا مرکزی نقطہ ان کی ملازمت سے متعلق امور ہوتے ہیں ۔

ساٹھ سالہ محمد امیر شاہ نو عمری میں مسقط گئے اور پھر واپس آکر زمینداری کا سلسلہ کرنے لگے گھوڑوں کے شوقین ہیں اور دیسی نسل کی ایک گھوڑی اب بھی رکھی ہے ۔ 56 سالہ تصدق حسین جعفری نے کچھ عرصہ فوج میں ملازمت کے بعد کوئی ملازمت نہ کی اور وہ چوپال پر مستقل آتے ہیں ۔ 43 سالہ غلام علی حال ہی میں فوج کی ملازمت سے سبکدوش ہو کر آئے ہیں اور ہر موسم میں چوپال پر حاضری دیتے ہیں ۔

ان سب کے دوستوں کے علاوہ بھی گاؤں سے لوگ یہاں آتے رہتے ہیں یہاں گپ شپ اور چائے پانی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور کبھی کبھار دعوتوں کا بھی ۔ ان سب دوستوں سے الگ برآمدے میں 85 سالہ جمال شاہ مستقل طور پر یہاں بیٹھتے ہیں وہ نابینا ہیں اور بلاناغہ چوپال کا حصہ ہیں ۔ سید جمال شاہ دوستوں کی گفتگو میں کبھی کبھار حصہ لیتے ہیں اور زیادہ توجہ سننے پر رکھتے ہیں ۔ قصبہ چک مصری کی یہ چوپال ہماری دم توڑتی روایات کے چند باقی رہ جانے والی نشانیوں میں سے ایک ہے ۔