
عرض حال
راقم سب سے زیادہ اللّٰہ تعالیٰ کا شکر گزار ہے جس نے تاریخ پیران مالمولہ و پلاسی کو یک جا کرنے کی توفیق عطا فرمائی ۔
میں نے اس مسودے میں کوشش کی ہے کہ سارا مواد معیاری ہو تاکہ پڑھنے والوں کو مشکل نہ ہو ، اور اہل مالمولہ و پلاسی کے پیران کو اپنی تاریخ و شجرہ نسب آسانی کے ساتھ میسر آجائے ۔
کچھ لوگوں کے لیے عام ہو گا مگر پیرانِ پلاسی و مالمولہ کے لیے یہ مسودا اہمیت کا حامل ہے ۔
آخر میں قارئین کی خدمت میں عرض گزار ہوں کہ مسودے میں بہت سی کمی کوتاہیاں ہوں گی ، کئ عظیم شخصیتوں کا تزکرہ نہ ہو سکا ہو گا یہ سہواً خیال فرمائے نشاندھی پر آئندہ ایڈیشن میں انشاءاللہ ان کا تزکرہ شامل اشاعت ہو گا ۔
نام ۔۔۔ محمد شاہ میر شاہ ولد نادر شاہ
تاریخ پیدائش۔۔۔ 30 اکتوبر 1996
گاؤں مالمولہ، ڈسٹرکٹ ایبٹ آباد ۔
&تاریخ پیرانِ پلاسی و مالمولہ&
یہ الگ بات کہ خاموش کھڑے رہتے ہیں
پھر بھی جو لوگ بڑے ہیں وہ بڑے ہی رہتے ہیں،
ایسے درویشوں سے ملتا ہے ہمارا شجرہ
جن کے جوتوں میں کئی تاج پڑے رہتے ہیں ۔
اس قبیلے کا تعلق قبیلہ بنو اسد سے ہے جو کہ بنو ہاشم کی شاخ ہے اور مادری تعلق گیلانی قبیلہ سے ہے ۔
یہ غوث بہاوالدین زکریا ملتانی (رح ) کی اولاد ہیں اور کے سلسلے میں 16 نمبر پر آتے ہیں ۔ اس قبیلے کے بزرگ عرب سے سندھ اور پھر وہاں سے ملتان آکر آباد ہوئے ۔ یہ قبیلہ پہلے پیل پیران ضلع خوشاب اور پھر اور پھر ہزارہ میں اسلام کی روشنی پھیلانے کے لیے آباد ہوا ۔
& شجرہ نسب شیخ الاسلام حضرت غوث العلمین ابو محمد مخدوم بہاوالدین زکریا ملتانی سہروردی (رح)



ہاشم
۱) اسد
۲) امیر عیاز
۳) امیر عبدالرحیم
۴) امیرمحمد تاج الدین شاہ
۵) سلطان خادم شاہ
۶) سلطان حزیم شاہ
۷) سلطان مہطرفہ شاہ
۸) سلطان حسن شاہ
۹) سلطان عبداللّٰہ شاہ معروف شمس الدین
۱۰) سلطان حسین شاہ
۱۱) سلطان قاضی علی محمد شاہ
۱۲) سلطان علی قدسی بمشہور سلطان جلال الدین
۱۳) سلطان کمال الدین شاہ
۱۴) شیخ وجہ الدین معروف محمد غوث
۱۵) شیخ الاسلام حضرت غوث العلمین ابو محمد مخدوم بہاوالدین زکریا ملتانی سہروردی (رح)
خاندان پیران مالمولہ ، پلاسی و پیل پیران :
اِن پیران میں تین خاندان پائے جاتے ہیں جو سب پیر خواجہ نوری کی اولاد ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
فتے شاہ-آل (فتشال) ، دآئم شاہ-آل ( دائمشال) اور کالا شاہ-آل
( کلیال ) جن کی دو مزید شاخیں ہیں شرف شاہ-آل (شرفشال) اور سونے شاہ-آل (سونےشال) ۔
پیل پیران سے پیر قوم کے کچھ خاندان مختلف علاقوں میں ہجرت کر گئے اُن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں
کرولی پیران ، پیر خانیوال وغیرہ جو کہ ڈسٹرکٹ چکوال میں واقع ہیں اور کچھ خاندان پلاسی ، مالمولہ ،،اڑواڑی ، تھاتھ کرم شاہ ، باوڑ جو کہ ڈسٹرکٹ ایبٹ آباد میں واقع ہیں جبکہ پیر آف بہیرہ شریف (ڈسٹرکٹ سرگودھا ) اور پیر دا کھارا (ڈسٹرکٹ چکوال) کا شجرہ نسب بھی اِن خاندانوں کے ساتھ ملتا ہے ۔
& خاندان پیرانِ(پیل):-
پیل پیران جو کے خوشاب ڈسٹرکٹ میں واقع ہے ۔ پیل پیران میں یہ قبیلہ ہزاروں کی تعداد میں آباد ہیں۔
خاندان پیرانِ پیل کے جد امجد حضرت پیر علی قتال شاہ ملتان سے ریاضت کے لیے اس جگہ تشریف لائے ، اور یہاں پر اب موجود پیر خواجہ نوری کے مزار کے ساتھ چھپری(جھونپڑی) ڈال کر ریاضت میں مصروف ہو گئے یہ علاقہ ڈل میں راجہ سلطان سکھر کے گھوڑوں کی چراہ گاہ تھی ۔ راجہ سلطان سکھر آپ کے روحانی کمالات دیکھ کر بہت متاثر ہوا اور اپنی بیٹی کی شادی پیر علی قتال شاہ (رح) کے ساتھ کر کے موضع پیل اور گردونواح کا علاقہ جہیز میں دے دیا جو کہ رقبے میں ایک لاکھ بیس ہزار کنال سے کچھ زیادہ بنتا تھا ۔
چھپری (جھونپڑی) کو ملتان کے لوگ پیل کہتے ہیں یوں اس جگہ کا نام پیل ہو گیا ۔
اس خاندان میں باکمال شخصیت پیر خواجہ نوری رح جن کا مزار پیل میں موجود ہے اور دوسرے پیر اچھا صاحب جنکا مزار پیل پدھڑا کے درمیان چکوال روڈ پر موضع کچر (نزد پیل ) میں ہے ۔
یہاں ایک چشمہ پہر اچھا مشہور ہے جسمیں غسل کرنے سے پھوڑے پھنسیاں دور ہو جاتیں ہیں ۔
آجکل اس قوم کے افراد اور دیگر پیشوں سے وابستہ ہیں
& شجرہ نسب پیران مالمولہ پلاسی و پیل پیران:
۱) شیخ الاسلام حضرت غوث العلمین ابو محمد مخدوم بہاوالدین زکریا ملتانی سہروردی (رح)
۲) حضرت شیخ صدر الدین عارف
۳) شیخ اسماعیل شہید
۴) شیخ صدر الدین حاجی
۵) شیخ رکن الدین سمر قندی
۶) شیخ عمادالدین
۷) شیخ یوسف
۸) شیخ شہراللہ
۹) شیخ صدر الدین ثانی
۱۰) پیر علی قتال شاہ
۱۱) پیر خواجہ نوری (رح)
۱۲) پیر عالم شاہ
۱۳) پیر کالا شاہ
۱۴) پیر بہاون شاہ
۱۵) پیر نور شاہ
۱۶) پیر عبدا لشکور شاہ
۱۷) ستار شاہ معروف بہاون شاہ
۱۸) پیر عبداللہ شاہ ( ساکن پلاسی )
& اولاد پیر عبداللہ شاہ (ساکن پلاسی)
— پیر شرف شاہ
– پیر سید شاہ
– پیر مہتاب شاہ

ہزارہ میں اس قبیلے کی آمد
پیر خواجہ نوری کی اولاد سے پیر جمال شاہ (رح) اور بھون شاہ (رح ) معروف ستار شاہ سیر غربی ، زیارت معصوم آکر آباد ہوئے اور ان دونوں کو سیر اور میرا حسنال درمیان دفن کیا گیا جو آج کل “خانقاہ شریف” کے نام سے مشہور ہے ۔
وہ اپنے وقت کے صوفیاء ، اولیاء کی صف میں شامل ہوتے ہیں ۔ اور ہر سال باقاعدگی سے وہاں عرس منایا جاتا ہے ۔
پیر بھون شاہ کی اولاد میں سے عبداللہ شاہ رح “پلاسی” میں آباد ہوئے اور وہاں اُن کا مزار ہے اُن کی اولاد مالمولہ، پلاسی، پیل میں موجود ہے ۔ اُن کے بیٹے پیر سید شاہ ، پیر مہتاب شاہ اور پیر شرف شاہ تھے ۔پیر سید شاہ اور پیر مہتاب شاہ کی اولاد پلاسی اور پیل پیران میں رہائش پذیر ہے اور پیر شرف شاہ کی اولاد مالمولہ میں آباد ہے ۔ جبکہ پیر جمال شاہ (رح) کی اولاد نہ تھی ۔ اِن بھائیوں کا دور19 ویں سدی عیسوی میں گزرا ہے
لفظ پلاسی کے معنی :-
اردو میں جنگ کا نام پلاسی ہے، درحقیقت یہ بنگالی زبان کا لفظ پلاشی (بنگلہ:পলাশী) ہے، جس کے معنی پھولوں کا علاقہ ہے۔
گاؤں مالمولہ :-
گاؤں مالمولہ :-
مالمولہ سے مراد مولا کا مال ۔ یہ گاؤں ڈسٹرکٹ ایبٹ آباد ، تحصیل لورہ اور یونین کونسل سیر غربی میں واقع ہے ۔اس گاؤں میں 110 گھر آباد ہیں اور آبادی 500 کے لگ بھگ ہے ۔ اکثریت یہاں ان پیران کی پائی جاتی ہے جن کا تعلق قبیلہ اسدی ہاشمی سے ہے اور تاریخ کی کتابوں میں ان کو پیرانِ پلاسی کا بھی لقب دیا گیا ، یہ سب پیر شرف شاہ کی اولاد ہیں جو پیر عبداللہ شاہ ( رح ) کے بیٹے تھے جن کا مزار شریف گاؤں پلاسی میں موجود ہے۔ مالمولہ گاؤں پیر شرف شاہ کو احدِ سکھ میں جاگیر میں ملا اور پھر بعد میں شرف شاہ کی اولاد اس گاؤں میں پھلی پھولی اور اب ایک درخت کی طرح ان کی اولاد کی بھی بہت سی شاخیں ہیں جو اس گاؤں میں آباد ہیں اور ہر خاندان مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے مثلاً ڈیڈھی والے ، چوکی والے ، برج والے وغیرہ – اس کے پیر مہتاب شاہ اور پیر سید شاہ جو کہ پیر شرف شاہ کے بھائی تھے اُن کی اولاد میں سے بھی کچھ گھرانے اس گاؤں میں آباد ہیں لیکن اُن کے زیادہ وارث پلاسی ، خوشاب ، اور سرگودھا میں بھی آباد ہیں ۔ پہاڑی سلسلہ ہونے کہ باوجود یہ گاؤں ایک میدان پر مشتمل ہے ۔ اس گاؤں میں ان پیران کے علاوہ اور بھی چند قومیں آباد ہیں جن میں گجر ، عباسی ،اعوان ، مغل بھی ہیں ۔۔۔۔ مغل ، گجر ، اعوان اس گاؤں میں مزارہ کے طور پر آباد ہوئے اور اس گاؤں میں ان کی کوئی مالکیت نہ تھی ، پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد صدر ایوب خان کے دور میں جب زرعی اصلاحات ہوئیں تو ان قوموں کے چند لوگوں کو مالکیتی حصے مل گئے لیکن اکثریت گاؤں مالمولہ میں ان پیران کی ہے ۔ یہ ایک خوبصورت گاؤں ہے اور ایک وادی کا منظر پیش کرتا ہے اسے دو اطراف سے ندی (ہرو) نے گھیرا ہوا ہے اور دو طرف پہاڑی سلسلہ ہے ۔ تاریخ میں اگر جائیں تو اس گاؤں میں سکھ اور ہندو بھی آباد رہے ہیں جن کی آبادی کی نشانیاں آج بھی باقی ہیں اور کچھ ہندو خاندان تو 1947 قیام پاکستان تک اس گاؤں میں آباد رہے اور جب پاکستان بنا تو انہیں یہ گاؤں چھوڑنا پڑا اسی دوران جب 1947 میں ہزارہ میں سکھوں اور ہندوؤں پر حملے شروع ہوئے تو گاؤں مالمولہ میں آباد دو ہندو خاندانوں کو میرے دادا جاگیردار پیر انور شاہ نے باحفاظت نکالا اور علاقہ جبری تک انہیں تحفظ فراہم کیا اور پھر انہیں ایبٹ آباد جہاں مہاجرین کے کیمپ تھے وہاں روانہ کیا ۔ جب وہ ہندو خاندان ایبٹ آباد پہنچے تو انھوں نے میرے دادا کو ایک خط لکھا کہ فلاں دن ہم ٹیکسلا کی طرف روانہ ہوں گے اور آپ ٹیکسلا آ کہ ہم سے ایک آخری ملاقات کر لیں ۔ لیکن اُن کا وہ خط وقت پے نہ پہنچ سکا اور جب پہنچا تو وہ وہاں سے جا چکے تھے ۔ یہ ایک مختصر سا واقع تھا جو بیان کیا ۔
گاؤں مالمولہ میں بسنے والی قدیمی قومیں :-
کچھ مزید ریسرچ تحقیق کے بعد یہ بھی پورے یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اس گاؤں میں دورے قدیم میں ہندوشاہی قوم بھی آباد رہی جن کا دور ایک ہرزار سال پہلے گزرا اور مزید یہ کہ بائیس سو سال پہلے بھی یہاں ایک قوم گزری ہے جن کا تعلق قدیم سلطنت کوشان سے ہے اور یہ دور کوشان کا دور تھا ۔
© قدیم قوم ہندو شاہی :
برہمن شاہی یا ہندو شاہی-
ً مقامی بادشاہوں کے جس سلسلے نے آخر تک عربوں یا مسلمانوں کی مزاحمت کی وہ برہمن شاہی یا ہندو شاہی یا رایان کابل کا خاندان تھا ۔ جنہیں مسلمان مورخین رتبیل ، زنبیل اور زنتبیل لکھا ہے ۔ یہ نام مختلف املا میں رتبال ، رسل ، رتسل ، زنبیل ، رن بیل وغیرہ 3ھ سے دو صدی تک عرب مورخین کابلشاہ اور سجستان کے بادشاہ کو لکھتے رہے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی خاص شخص کا نام نہیں تھا بلکہ خانوادہ کا مورثی لقب تھا ۔ ویلبون اور راوڑتی اس کو رتن (رتنہ پالہ یا رنہ پالہ) سمجھتے ہےں ۔ دوسرے لکھنے والوں نے کسی ایک قرات پر اعتماد نہیں کیا ہے ۔ ممکن ہے یہ نام راون زبل یا رای زبل ہوں کہ اس کے معنی رائے یا رانائے زابل کے ہوں گے ۔
البیرونی انہیں بلند کردار کے حکمران بتاتا ہے ۔ اس کے ہاں حسب ذیل نام ملتے ہیں ، سامند (سامنتہ دیو) ، کمالو (کمرہ ؟) ، بھیم (بھیمہ دیو) ، جے پال (جیہ پالہ) ، آنند پال (آنندہ پالہ) ، تروجن پال (ترلوچن پالہ) کے علاوہ چار حکمرانوں کے ناموں کا پتہ مشرقی افغانستان اور پنجاب سے دستیاب شدہ سکوں سے پتہ چلا ہے ۔ یعنی سہالہ پتی ، پدمہ ، خورودیکہ اور نکہ دیو ۔ راج ترنگی کا مولف اس خاندان کی تایخ پر کچھ روشنی ڈالتا ہے ۔ وہ بیان کرتا ہے کہ بھیم دیو کشمیر کی رانی ودّا کا دادا تھا ۔ یہ خاندان وردر اسلام سے 421ھ/1030ئ تک موجود رہا جب افغانستان کے مشرقی حصہ پر اسلامی لشکر کا قبضہ ہو گیا تو دارلحکومت گردیز اور کابل سے اوہنڈ (ویہنڈ) منتقل ہوگیا ۔
اسلامی لشکر کے ساتھ رتنبل کا پہلا ٹکراؤ 24ھ/644ئ میں ارغنداب میں ہوا جس میں رتنبل مارا گیا ۔ البلازی نے ہیاطلہ کے نام سے اس کی مملکت کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ہرات تک پھیلی ہوئی تھی ۔ 25ھ /35ھ میں سیستان کے حاکم عبداللہ بن عامر شدید جنگ کے بعد کابل فتح کرلیا ۔ لیکن جب عربوںکا لشکر واپس ہوا تو مزید پانچ سال کے لئے مقامی حکمران آگئے ۔ پانچ سال کے بعد عبداللہ بن عامر نے کابل دوبارہ مسخر کیا ، مگر مقامی حکمران بدستور حکمران رہے ۔
اگرچہ اس دوران اسلامی لشکر سمندر کے راستہ ہندوستان پہنچ کر سندھ و ملتان فتح کر چکا تھا (96ھ/714ئ) ۔ اس طرح افغانستان کے عقب میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا ۔ تاہم افغانستان میں مقامی باشندے آخر تک مقابلہ کرتے رہے ۔ یہاں تک 151ھ/738ئ میں سیستان طاہریوں کا اثر و رسوخ مغربی و شمالی افغانستان تک قائم گیا ۔ جب کہ جنوبی و مشرقی افغانستان پر کابل شاہی بدستور حکمران تھے ۔ 247ھ تا 393ھ تک صفاری حکمران رہے ۔ اس کے ایک حکمران یعقوب نے بست و کابل پر قبضہ کرلیا ۔ 258ھ/871ئ تک اس نے رخج ، بلخ ، بامیان ، زمینداور ، والشبان ، تگین آباد ، قندھار ، غزنہ اور کابل فتح کر چکا تھا ۔ بقول ابن خلکان کے وہ 259ھ/876ئ سے 263ھ/876ئ تک اس اطراف و کناف (مثلاََ ملتان ، رخج ، طبیس ، زابلستان ، سندھ اور مکران) کے بادشاہوں کو مطیع کرلیا ۔ وہ پہلا حکمران تھا جس نے دریائے آمو سے سیستان اور بادغیس ، مرو اور ہرات سے کابل ، گردیز اور زابلستان تک پورے افغانستان پر قبضہ کرلیا ۔
977ئ میں سبکتگین غزنہ کا حکمران بنا ۔ اس کی ریاست کی مشرقی حدود کابل شاہی یا برہمن شاہی کی ریاست سے ملتی تھی جو وادی لمغان سے چناب تک پھیلی ہوئی تھی ۔ اس کا حکمران جیپال ایک طاقت ور حکمران تھا ۔ اس لیے اس کا تصادم غزنہ سے ناگزیر ہوچکا تھا ۔ ہوا بھی یہی لیکن جے پال کو شکست ہوئی تو اس نے صلح کی درخواست کی اور دس لاکھ روپیہ اور پچاس ہاتھی سبکتگین کو بھجنے کا وعدہ کیا ۔ سبکتگین نے یہ شرائط مان لیں ، لیکن جےپال نے اپنا وعدہ پورا ہی نہیں کیا ، بلکہ جو سفیر رقم وصول کرنے آئے تھے ان گرفتار کر لیا ۔ اس پر سبکتگین نے اقدام کیا اور جے پال کے علاقوں پر قبضہ کرلیا ۔ جس پر جے پال نے بڑے پیمانے پر لڑائی کی تیاریاں شروع کیں اور شمالی برصغیر کے راجاؤں سے اپیل کی کہ وہ مدد کو آئیں ۔ لیکن سبکتگین کے تربیت یافتہ سپاہی ہندو راجاؤں کی متحدہ فوج کے مقابلے میں کامیاب رہے اور جے پا ل کو شکست ہوئی ۔ جے پال کی فوج شکت کھا کر دریائے سندھ کی طرف بھاگی اور امیر سبکتگین کے قبضہ میں وادی لمغان کے علاہ پشاور کے قرب و جوار کے علاقے آگئے ۔ ان مفتعوقہ علاقوں پر اس نے اپنی حکومت قائم کی ۔
سلطان محمود غزنوی 991ئ میں غزنی کا حکمران بنا تو جے پال نے کثیر فوج کے ساتھ غزنی کا رخ کیا ۔ سلطان محمود غزنوی نے اس سے مقابلہ کیا اور جے پال کثیر فوج کے باوجود مسلم فوج کے مقابلے میں نہیں ٹہر سکے ۔ سلطان محمود نے ہندو شاہی حکمرانوں کے دارلحکومت وہنڈ کو تاراج کیا اور جے پال کو اس کے بیٹوں اور پوتوں کے ساتھ گرفتار کرلیا ۔ جے پال نے ایک کثیر رقم اور پچاس ہاتھی دینے کا وعدہ کرکے صلح کر لی ۔ جے پال کو غزنویوںکے مقابلے میں ایسی شکستیں ہوئیں تھیں کہ وہ شرم کے مارے زندہ نہیںرہنا چاہتا تھا ۔ چنانچہ اس نے اپنے لڑکے آنند پال کو جانشین مقرر کر کے خود کو چتا میں جلالیا ۔
1005ئ میں جب محمود غزنوی نے ملتان کے قرمطی حکمران ابوالفتح داؤد کے خلاف خلاف فوج کشی کے لئے وے ہنڈ کا راستہ اخٹیار کیا ۔ آنند پال محمود غزنوی کا باج گزار ہونے کے باوجود اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی تو محمود غزنوی نے اسے پشاور کے قریب شکست فاش دی ۔ واپسی پر اس نے جے پال کے نواسے سکہہ پال کے سپرد مقتوحہ علاقہ کی حکومت کی ، جس نے اسلام قبول کرلیا تھا ۔ اسے اکثر مورخوں نے اسے نواسہ شاہ لکھا ہے ۔ سکہہ پال نے یہ دیکھ کر کہ محمود غزنوی دوسرے ملکوں سے جنگ میں مصروف ہے اسلام ترک کر کے اپنا قدیم مذہب دوبارہ اختیار کرلیا اور سلطان کے خلاف بغاوت کردی ۔ محمود غزنیوی کو اس کی اطلاع ملی تو وہ اپنی مہم کو فوری طور پر ختم کر کے برصغیر کی جانب روانہ ہوگیا ۔ سکہہ پال کو لڑائی میں شکست ہوئی اور وہ پہاڑوں کی طرف بھاگ گیا ۔ لیکن محمود کے سپاہی اس کو گرفتار کر کے لائے ۔ محمود غزنوی نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور اس سے تاوان جنگ لے کر اسے ایک قلعے میں محصور کردیا ۔
سکہہ پال کی بغاوت ختم کرنے کے بعد اس نے ضروری سمجھا کہ آنند پال کو سزا دے ، کیوں کہ ملتان کی مہم کے دوران جب وہ پنجاب سے گزرنا چاہتا تھا تو آنند پال معمولی مزاحمت کے بعد فرار ہوگیا تھا ۔ لہذا محمود نے اس کو سزا دینا ضروری سمجھا ۔ آنند پال کو بھی اندازاہ ہوگیا تھا کہ محمود غزنوی اس کے خلاف اقدام کرے گا ۔ لہذا اس نے بھی تیاری کی اور ہندو راجاؤں کو متحدہ کر کے ایک زبر دست فوج ترتیب دینے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب رہا ۔ وہ اس مرتبہ اکیلا نہیں تھا ، بلکہ اس کے ساتھ اجین ، گولیار ، کالنجر ، قنوج ، دہلی اور اجمیر کے راجاؤں سے گتھ جوڑ کر کے ایک متحدہ محاذ بنا لیا ۔ ایشوری پرشاد کے مطابق نسل ، مذہب اور حب الوطنی قوتیں ہندو تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور بیرونی حملہ آوروں سے بچانے کے لئے متحد ہوگئیں ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ آنند پال کے متحدہ محاذ میں تیس ہزار کی تعداد میں ہندو کھوکر قبیلہ کے جوان شامل ہوگئے تھے ۔ لیکن سپاہ یہ بڑی تعداد خوفزدہ کرنے کے لئے کافی تھی لیکن میدان جنگ میں جوہر دکھانے کے لئے نہیں ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وے ہنڈ کے قریب میدان جنگ میں گھمسان کا رن پڑا تو ہندو فوج بھاگ نکلی اور بے شمار مال غنیمت محمود غزنوی کے ہاتھ آیا ۔
اب آنند پال کا دارلحکومت نندانا تھا ۔ آنند پا ل کی مخالفت کا امکان ختم نہیں ہوا تھا ، چنانچہ محمود غزنوی نے991ئ تا 1010ئ میں اس پر حملہ کردیا ۔ آنند پال نے مجبور ہو کر سر خم تسلیم کیا اور وعدہ کیا کہ وہ ہر سال غزنہ کو خراج ادا کرتا رہے گا ، اس کے علاوہ محمود غزنوی کی فوج کو ایک دستہ بھی مہیا کرے گا ۔
آنند پال کے بعد اس کا بیٹا ترلوچن پال حکمران بنا ۔ اس کا روئیہ بھی ٹھیک نہیں تھا ۔ لہذا سلطان کو اس کے خلاف کاروائی کرنا ضروری تھی ۔ ترلوچن پال کو جب پتہ چلا کہ سلطان اس کے خلاف جنگ کا ارادہ کررہا ہے تو اپنی جگہ بھیم پال کے سپرد نندانا کا قلعہ کر کے خود کشمیر چلا گیا ۔ سلطان نے ایک مختصر سی لڑائی میں بھیم پال کو شکست دے کر نندانا کے قلعہ کو فتح کرلیا اور ترلوچن کی تلاش میں کشمیر روانہ ہوا اور اس کو شکست دے دی مگر وہ ہاتھ نہیں آیا ۔
یوں برہمن (ہندو) شاہی خاندان جس کا ساڑھے تین سو سال کی حکومت کے بعد اس کاسورج ڈوب گیا ۔ اس خاندان کی بنیاد کاپسیا میں پڑی تھی اور جب افغانستان کے مشرقی حصہ پر اسلامی لشکر کا قبضہ ہو گیا تو دارلحکومت گردیز اور کابل ، کابل سے اوہنڈ (ویہنڈ) (جسے ترنگی راج میںادھے پانڈے کہا گیا ہے) پھر نندانا (جہلم کے قریب) منتقل ہوگیا ، جہاں یہ اختتام پذیر ہوا ۔
©احدِ کوشان:-
کوشان سلطنت یا کشان سلطنت ایک اتحاد پسندانہ سلطنت تھی جسے یوہژی نے باختر کے علاقوں پہلی صدی کی ابتدا میں قائم کیا۔ یہ موجودہ دور کےافغانستان کے تقریباً تمام علاقے، پاکستان اور ہندوستان کے شمالی علاقوں سے سارناتھ اور وارانسی تک پھیل گئی۔
چینی ماخذوں کی رو سے یوچیوں کا وطن شمالی چین تھا۔ 165 ق م میں وسطی ایشیا کے ایک دوسرے قبیلہ ہیونگ نو (Hinng nu) نے یوچیوں پر حملہ کر دیا اور انہیں وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ یوچی سردار مارا گیا اور فاتح نے اس کی کھوپڑی کو جام شراب کے طور پر استعمال کیا۔ یوچی (yuechi ) ترک وطن کے بعد مغرب کی طرف روانہ ہوئے تو ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ راستہ میں انہوں نے دریائے ایلی (Ealy) کے کنارے دوسون (Wn sun) قبیلہ کو شکست دی۔ اس فتح کے بعد ان کی ایک شاخ جنوب کی طرف بڑھ گئی اور تبت (Tibte) کی سرحد پر آباد ہو گئی۔ یہ شاخ جسے تاریخ میں یوچی خورد (Yuechi Miner) کہلاتی ہے، جبکہ بڑی شاخ یوچی اعظم (yuechi The Garet) کہلاتی ہے۔ یوچی اعظم مغرب کی جانب بڑھتی چلی گئی، یہاں تک کہ دریائے سیحون (Oxus) کے میدان میں پہنچے اور چند سال کی جنگوں کے بعد انہوں نے سیتھیوں کو مغلوب کر لیا اور انہیں جنوب و مغرب کی طرف ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ اب ساکاؤں کو نیا وطن اپنا نیا وطن تلاش کرنا پڑا، چنانچہ وہ جنوبی افغانستان کے علاقے میں آ گئے۔ اس عرصہ میں دوسون سردار کا لڑکا جوان ہوچکا تھا۔ وہ یوچیوں کے مخالفین یعنی ہیونگ نو کے سرداروں سے مدد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور دوسون اور ہیونگ نو قبیلے نے مل کر یوچیوں کو اس علاقے سے بھی نکال دیا، جو انہوں نے ساکاؤں سے چھین لیا تھا۔ اب یوچی مجبور ہوکر دریا جہیون کی وادی میں آ گئے اور وہاں سے ساکاؤں کو نکال کر بلخ، باختراور سغدیانہ کے علاقے پر قابض ہوکر اس علاقے میں آباد ہو گئے۔ پہلی صدی کے آخر تک یوچی خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے رہے اور پہلی صدی کے آخر میں انہوں نے خانہ بدوشوں کی زندگی ترک کر کے ایک ممتذن قوم کی زندگی بسر کرنے لگے۔ ان کے پانچ قبیلے تھے اور انہوں نے پانچ ریاستوں کی بنیاد رکھی , جن میں ایک قبیلہ کشن یا کشان تھا اور جس کے نام پر ان کی ریاست کا نام بھی کشن یا کشان پڑا۔ یہ تمام معاشرتی اور سیاسی ارتقا 10 ق م میں مکمل ہو گیا۔
©کوشان یا کشان :-
شمال مغربی چین میں’ ’یوہ چی‘‘ نام کی برادری کے کئی قبیلے تھے جنھوں نے وسط ایشیا کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ پہلی صدی قبل مسیح کے آخر تک اس برادری کے ایک طاقتور قبیلے’ ’کشان‘‘نے اپنی برادری کے بقیہ قبیلوں کو شکست دے کر ان پر اپنا قبضہ جمالیا۔ اس کے بعد پوری برادری کا نام ہی’ ’کُشان ‘‘ پڑ گیا۔ کُشان نسل کے لوگوں نے وسطی اشیا میں کاشغر اور کھیتان سے لے کر ہندوستان کے شمال مغرب میں پرتھیا اور بیکٹریا پر قبضہ کر کے سندھ، پنجاب اور شمالی ہند میں کاشی تک اپنی حکومت پھیلادی۔ کُشان شاہی گھرانے کا پہلا شہنشا ہ کڈ فائسِس اول (73۔33ء) تھا اور دوسرا بیٹا بِیم کڈ فائسِس دوم (78۔73ء) تھا۔ اس نسل کا تیسرا شہنشاہ کَنِشک(128۔78ء) ہندوستان کے کُشان حکمرانوں میں سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ وہ بودھ مذہب کا پیرو تھا۔ ہندوستان میں اس کی حکومت کشمیر، پنجاب، سندھ و موجودہ اترپردیش کے مغرب سے کاشی اور پاٹلی پُتر تک پھیلی ہوئی تھی۔ جس میں شمالی ہند کا سنبھل علاقہ بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ افغانستان، بیکٹریا اور وسطی ایشیا کے یارقند، تاشقند، کاشغر اور کھیتان بھی اس کی ریاست میں ملے ہوئے تھے۔ کَنِشک کی راجدھانی پورُشپور (موجودہپشاور )تھی۔ کَنِشک نے تقریباً 45سال حکومت کی۔
اس کی ایک صدی تک یوچی قوم کی سلطنت کی تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ لیکن اس قوم کی پانچ ریاستوں میں جو ہندو کش کے شمال میں واقع تھیں منقسم ہوجانے کے بعد کم و بیش سو برس کے بعد کشن کا سردار جو کیڈ فائسس اول کے نام سے مشہور ہے۔ اس کام میں کامیاب ہوا کہ اور اپنے ہم قوم و دیگر سرداروں کو اور خود کو تمام یوچی قوم کا سردار اور بادشاہ ہو جائے اس کی صحت کی تاریخ 15ء تقریباً صحت کے ساتھ مقرر کی جاسکتی ہے۔
# آبادی :-
1901 کی مردم شماری کے مطابق اِن پیران کی آبادی تین ہزار ایک سو پندرہ تھی 3115 تھی ۔ جوکہ پلاسی ، مالمولہ اور تاتھ کرم شاہ میں آباد تھے
# قومیں :-
گاؤں مالمولہ اور گاؤں پلاسی میں اکثریت تو اِن پیران کی ہے لیکن یہاں اور بھی کئ قومیں آباد ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔
سید
عباسی
گجر
مغل
سردار
بلوچ
بلوچ اور گجر خدمت گار کے طور پر پران پلاسی و مالمولہ کے برگان کے ساتھ یہاں تشریف لائے جو آج بھی یہاں آباد ہیں ۔
# پیر آف پلاسی کا خطاب (pirs of plassi) :-
سکھ حکومت کا خاتمہ اور انگریز دور کی شروعات کے بعد 1859 میں مالمولہ و پلاسی کو پیر سٹیٹ/state کا درجہ دیا گیا ۔ جس کا کاغذی ثبوت پیرانِ مالمولہ کے پاس آج بھی موجود ہے ، اور اس وقت کی حکومت نے اِن پیران کو سپیشل/مخصوص سٹیٹس سے نوازا جو کہ” پیر آف پلاسی /Pirs of Plassi ” کے نام سے تھا.
# 19 سدی عیسوی مالمولہ اور پلاسی میں نمایا شخصیات
19 سدی عیسوی میں پلاسی میں پیر مظفر شاہ ، پیر منور شاہ ، پیر فتح محمد صدیق شاہ ، چن پیر شاہ رہتے تھے ۔
مالمولہ میں تین گھرانے معروف تھے برج والے چوکی والے اور ڈھیڈی والے ۔
برج والوں میں پیر رحمت شاہ صاحب مرحوم ( ھیڈ ماسٹر ہائی سکول لورہ) اپنے وقت کے پڑھے لکھے قابل لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے ۔
اور چوکی والوں میں فیروز شاہ اور سہراب شاہ صاحب مرحوم کی نمایا حثیت رہی
ڈھیڈی والوں میں جاگیردار پیر صدیق شاہ مرحوم (اول ڈسٹرکٹ کونسل ہزارہ ) کے بیٹے اور میرے دادا جاگیردار پیر انور شاہ صاحب مرحوم نہایت ہی قابل لائق فائق ہستی ہو کر گزرے ہیں ۔ ایسے لوگ سدیوں بعد کسی قبیلہ میں پیدا ہوتے ہیں ۔ اِن کا دور 1906 سے 1990 تک کا ہے ۔جس میں انہوں نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے خاندان اور اہل علاقہ کی خدمات میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا ۔ تمام دنیاوی معاملات میں لوگوں کی اتنی خدمت کی نو سدیوں نہیں بھلائی جا سکتی۔اُن کی وفات کے بعد اُن کے چچا زاد بھائیوں میں پیر سلیم شاہ صاحب مرحوم اور اب پیر عظیم شاہ صاحب نے اس سلسلے کو جاری کر رکھا ہے ۔ پیر عظیم شاہ صاحب مصالحتی کمیٹی اور امن کمیٹی کے ممبر بھی ہیں ، مشکل وقت میں نہ صرف اپنے خاندان بلکہ غیر برادری کی بھی خدمت کرتے ہیں ۔
# حصول جاگیر دوامی :-
یہ تمام علاقہ سکھوں کے زیر تسلط تھا جہاں سکھوں کی مکمل حکمرانی تھی پیرانِ پلاسی اگرچہ تعداد میں کم تھے مگر اپنی سیاسی ، جوہری اور مزہبی صلاحیتوں کے باعث تمام قبائل پر اپنا اثر رکھتے تھے ۔ اور تمام قبائل اِن کو اپنا روحانی پیشوا تصور کرتے تھے ۔
پیرانِ پلاسی کی زیر قیادت باقی تمام قبائل نے سکھو کے خلاف جہاد کر کے النے تمام علاقے میں اسلامی نظام کے نفاذ کو یقینی بنایا اور اس سلسلے میں حکومت وقت نے مختلف قبائل کو جاگیریں دیں ۔جن میں علاقہ لورہ میں عطا محمد خان ولد حاکم خان جن کی جاگیر پورا لورہ تھی اور ساتھ ہی عمر بھر کے لیے 360 روپے پنشن مختص کی گئی ۔
لورہ سرکل میں کل 5 جاگیریں تھیں جن میں سے تین جاگیریں پیران پلاسی کے پاس تھیں اور ایک جاگیر پیر کوٹ کے سادات علی اکبر شاہ ولد میر قابل شاہ کے پاس تھی جو کہ لورہ کے قریب واقع ہے اِن کی جاگیر کا مالیہ 66 روپے تھا اور کوئی پنشن نہ تھی ، اور پیرانِ پلاسی کے پاس یہ جاگیریں سکھوں کے دور سے موجود تھیں جن کو انگریزی حکومت نے بھی برقرار رکھا اور اِن کو جاگیر دوامی کا نام دے دیا ۔یاد رہے کہ جاگیر دوامی اُس وقت ہزارہ کے مخصوص لوگوں کو جاری کی گئیں اور پیرانِ پلاسی و مالمولہ بھی اُن میں سے ایک تھے ۔
# پیرانِ پلاسی و مالمولہ کی جاگیروں کے سرکاری دستاویزات


پیران پلاسی کی جاگیروں کی تفصیل :-
پیرانِ پلاسی و مالمولہ میں جن کو جاگیریں اور پینشن جاری کی گئیں وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
1) غلام شاہ ولد سید شاہ
2) فضل شاہ ولد مہتاب شاہ
3) نادرشاہ ولد پیر علی مردان شاہ(رح)
پیرانِ پلاسی و مالمولہ کی جاگیر اِن علاقہ جات پر مشتمل تھی ۔
موضع مالیہ
1) پلاسی 222
2) مالمولہ 222
3) چربٹ 180
4) نوشہرہ 24
5) اٹیرن (پھلہ) 153
6) سیر 9
7) بسویڑ —
1952 تک اِن جاگیروں کا مالیہ اور پنشن وصول کرتے رہے اور پنشن جاگیردوامی ہونے کی وجہ سے آج بھی جاری ہے ، اِن پیران کے پاس مقررہ جاگیرداری کی ایک پرانی سند موجود ہے جو کہ امیر کبیر نواب گورنر جنرل بہادر اور جیمز ایبٹ /James Abbott نے پیر شرف شاہ کو دی جب وہ سکھ دربار اور جموں حکومت کے درمیان فیصلہ کرنے آئے ۔ اِن مذاکرات میں پیران پلاسی بھی موجود تھے۔
سند جاگیردوامی :-
(by Nawab Governor General Bhadour : 1859)

جاگیر و پنشن سند
(by Settlement Officer : E.G Wace )

یہ سند نادر شاہ ولد پیر علی مردان شاہ کو 1872 میں دی گئی جب سرکار نے جاگیر کا مالیہ کم کر دیا تو اُس نقصان کو پورا کیا گیا
ہزارہ میں دربار کا انعقاد (ہزارہ کے درباری):-
ہزارہ میں سکھ دور میں اور انگریزوں کے دور میں دربار لگائے جاتے تھے جہاں لوگوں کے مسائل حل کیئے جاتے تھے اور لوگوں کے مسائل حکومت تک پہنچائے جاتے ۔ ہزارہ میں دربار کا انعقاد چند جگہوں اور اس کے لیے چند لوگوں کو چنا گیا جن کے ہاں دربار لگتا تھا پیرانِ مالمولہ و پلاسی کا ذکر نمایاں ہے علاقہ لورہ میں سے فضل شاہ ، ستار شاہ اور عطا محمد خان کو ہزارہ کے درباری کا عہدہ دیا گیا۔
1906 میں ہزارہ کے چیفز/chiefs کا لیا گیا ایک گروپ فوٹو جس میں فضل شاہ اور ستار شاہ بھی نشست پر موجود ہیں
Third row right to left (seated on chairs):


#کرسی نشین
جاگیردار پیر صدیق شاہ ولد پیر نادرشاہ جو کہ میرے پڑدادا تھے 1915 تک کرسی نشین رہے ۔
#ہزارہ میں سکھوں کے خلاف پہلی لڑائی میں پیران پلاسی و مالمولہ کا کردار :-
ہزارہ میں فساد اور سکھوں کی اس لڑائی میں شکست اور انگریزوں کی فتح نے ہزار میں آزادی کی جنگ کے شعلے بھڑکا دیے اور ہزارہ میں سب سے پہلے ڈھونڈ قوم نے پیران پلاسی کی قیادت میں جنگ کا آغاز کر دیا ۔ انھوں نے سکھوں کے قعلے ماڑی پر حملہ کر دیا جو کڑال قوم کے علاقے میں تھا ۔ ماڑی قلعے پر حملے کے بعد ملراج کی طرف سے دو فوج کی اور پلاٹونیں بھیجیں گئیں کہ اِن کو سزا دی جائے لیکن اس فوج کو گڑھی جو کہ ڈھونڈ قوم کے علاقے میں تھا اور ناڑہ جو کہ کڑال قوم کے علاقے میں تھا وہاں شکست سے دو چار ہونا پڑا اور بہت سے سکھ سپاہیوں کو قتل کر دیا اس ساری صورتحال کو دیکھ کر اور اس کو قابو پانے کے لیے لاہور سے مزید دو ریجمنٹس/دستے بھیجے گئے جنہوں نے آکر حالات کو سنبھالا ۔
# قتل راجہ ہیرا سنگھ:-
چند روز بعد 1843 میں گلاب سنگھ ہودوالہ ، بدھ سنگھ مان آٹھ پلاٹونوں کے ساتھ ملک ہزارہ میں داخل ہوئے ، دیوان ملراج اِن پلاٹونوں کے ساتھ گڑھی حبیب اللہ کی طرف روانہ ہوا اور وہاں جا کر قیام کیا ۔ وہاں جا کر اُس کو خبر پہنچی کے راجہ ہیرا سنگھ، اس کا وزیر پنڈت چیلارام اور میاں سوہن سنگھ ، دیوان راجہ گلاب سنگھ فوج کے ہاتھوں مارے گئے ہیں ۔ (21 دسمبر 1844) لاہور کی ریاست مہاں راجہ راجیب سنگھ کے ماموں جوہر سنگھ کے سپرد کر دی گئی تھی ۔ جونہی یہ خبر فوج نے یہاں سنی تو بدھ سنگھ مان کی چاروں پلاٹونیں خودبخود لاہور کی طرف روانہ ہو گئیں۔ اور پھر کچھ وقفے کے بعد سردار کاہن سنگھ مجیٹھہ بھی لاھور روانہ ہو گیا ، اور دیوان ملراج بھی ہزارہ کو واپس ہوا ۔چند دن بعد گلاب سنگھ اور بدری ناتھ کے دونوں پلاٹونوں نے آکر ماڑی کے قعلے پر پھر سے واپس لے لیا ۔
اِن پلاٹونوں کے پہنچنے سے پہلے ہی ملراج نے تقریباً 400 مصلح سپاہی براستہ ناڑہ کرڑالاں بھیج دیے تھے ۔ راجہ علی بہادر خان خانپور والے کو مردم مشری ویرکوٹ کے راستے سے ماڑی کی طرف بھیج دیا گیا ۔
پیرانِ پلاسی اور حسن علی خان (کڑال قوم کے چیف) نے باہمی مشورے سے راجہ علی بہادر خان اور راجہ علی گوہر خان کو پہلے قتل کر دیا اور بعد ازاں اس فوج کے ساتھ جو ناڑہ جا رہی تھی جنگ کی ( جوکہ گڑھی کا میدان بتایا جاتا ہے ) ، اس جنگ میں مسلمان فوج کی قیادت پیر مہتاب شاہ کر رہے تھے جب دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا تو سکھ فوج کے ڈیڑھ سو ( 150 ) کے قریب فوجی قتل کر دیے بلکہ ناڑہ سے لے کر بگڑہ تک اس فوج کا تعاقب کیا اور فوج کو شکست دی اور اس علاقے میں سکھوں کی پیش قدمی کو روکا گیا ۔
“when there is no knowledge of the past
There can be no vision of the future “
ترجمہ :
جہاں ماضی کے واقعات کا علم نہیں وہاں مستقبل کی بلند نظری بھی پیدا نہیں ہو سکتی۔
محمد شاہ میر شاہ
03038004147